Our Story Urdu

کے یو جے کا جنم

تحریر اے حبیب خان غوری

۱۹۷۳

مترجم کاشف حسن

۲۰۲۱

کراچی کو ۱۹۴۸ میں سندھ یونین آف جرنلسٹس کے قیام کے ساتھ ہی صحافیوں کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے پہلے شہر ہونے کآعزاز حاصل ہوگیا تھا۔ پاکستان کے قیام کے فوری بعد ڈان اور انجام نے کراچی سے اشاعت شروع کی اور بعد ازاں جنگ بھی یہاں سے شام کے اخبار کی حیثیت سے شائع ہونے لگا۔ ڈیلی گزٹ اور سندھ آبرزرورکی اشاعت بھی جاری تھی۔ ایسے میں عامل صحافیوں نے سندھ یونین آف جرنلسٹس کی تشکیل کے لیے ایک ایڈہاک کمیٹی قائم کی جس کا کنوینر احمدعلی خان کو منتخب کیا گیا۔ کمیٹی نے صحافیوں کے اندراج، تنظیم سازی اور آئین سازی کا کام شروع کیا، معمول کی کاڑوائی کے بعد ایم عشر کی صدارت میں سندھ یونین آف جرنلسٹس معرض وجود میں آگئی جس کے جنرل سیکریٹری ایم اے شکور اور جوائنٹ سیکریٹری اسرار احمد تھے۔

۱۹۴۸ کا پورا سال سندھ یونین آف جرنلسٹس کو یکجا اور مستحکم کرنے میں گزرا مالکان کی جانب سے تنظیم کو دھمکیاں ملنے کے واقعات جاری تھے۔

دوسرے سال ۱۹۴۹ میں سندھ یونین آف جرنلسٹس نے ضمیر صدیقی کی صدارت میں کام کیا جنرل سیکریٹری اسرار احمد تھے۔ نئے انتخابات کے فوری بعد حقیقی ٹریڈ یونینسٹوں اور غیر حقیقی ٹریڈ یونینسٹوں کے درمیان تنازع شروع ہوگیا۔ حکومت پاکستان نے سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور پر چھ ماہ کے لئے کشمیر سے متعلق ایسی خبروں کی اشاعت پر پابندی لگادی جن سے حکام کو پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچتا نظر آرہا تھا۔

سندھ یونین آف جرنلسٹس کی تشکیل کے فوری بعد پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا بھی احیاء ہوگیا جس نے حکومتی رویے کیخلاف ایک مذمتی قرارداد منظور کی اور اقدام کو پریس کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔

سندھ یونین آف جرنلسٹس کی ایگزیکٹو کونسل نے فوری طور پر اجلاس طلب کیا اور اپنا ناقدانہ موقف وزیراعظم لیاقت علی خان کو ارسال کیا جو اس وقت مصر کے دورے پر تھے۔ سندھ یونین آف جرنلستس کی تشکیل کے پہلے روز سے دو اخبارات کے مدیران اس کے حق میں نہیں تھے لہذا انہوں نے بعض عہدیداران کو دباؤ میں لے کر ایگزیکٹو کونسل کا اجلاس طلب کروایا اور مذکورہ قرار داد پاس کروائی، یہ اجلاس غیر قانونی طور پر طلب کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ضمیر صدیقی نے سندھ یونین آف جرنلسٹس کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور انکی جگہ ایم اے شکور صدر منتخب ہوگئے۔

سندھ یونین آف جرنلسٹس کی ایگزیکٹو کونسل نے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے مسئلے پر اپنے سابقہ موقف پر ثابت قدم رہنے کا فیصلہ کیا، جس پر مالکان سیخ پا ہوگئے اور اس کی پاداش میں اشتیاق اظہر کو آزادی صحافت کی جدوجہد کا پہلا نشانہ بنایا گیا اورروزنامہ انجام کی ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔

اتحاد کا مظاہرہ

دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ ملک بھر کی صحافتی برادری سندھ آبزرور کے معاملے پر متحد ہوگئی۔ اس اخبار میں تاہل رحمانی بطور جنرل منیجر ملازمت کرتے تھے جن کا رویہ سندھ آبزرور کے تمام ملازمین سے انتہائی ہتک آمیز تھا۔ اس وجہ سے عامل صحافیوں اور جنرل منیجرمیں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ انہوں نے پانچ صحافیوں کو بڑی بری طرح ملازمت سے بیدخل کردیا۔ جن میں اسرار احمد، تحمل حسین، ابوالاخیار، محمد اویس اور محمد سمیع شامل تھے۔ تاہم انہوں نے عہدے چھوڑنے سے انکار کردیا جس پر جنرل منیجر نے پولیس کی مڈ حاصل کرکے مذکورہ صحافیوں کو گرفتار کروادیا۔ اس واقعے سے صحافتی حلقوں میں کراچی کی رسوائی ہوئی۔ میکلوڈر روڈ پر واقع سندھ آبزرورکی عمارت کے باہر صحافیوں کی طرف سے ناکے لگادیے گئے تاکہ کوئی شخص اندر داخل نہ ہوسکے، سارا دن کشیدہ صورتحال رہی تاہم شام میں اخبار کی انتظامیہ نے پولیس کی مڈ سے ناکے اکھاڑنے کی کوشش کی، آغا غلام نبی نے دفتر میں جانے کی کوشش کی تو صحافیوں نے انہیں روکنا چاہا، اس موقع پر پولیس آگئی اور اس نے صحافیوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ اس واقعے میں ۱۴ صحافی گرفتار ہوئے جن میں میاں منظورالحق، شمس صدیقی، ضمیرالدین احمد اور ایم بی خلیل بھی شامل تھے تاہم سندھ یونین آف جرنلسٹس کے وفد کی ایڈمنسٹریٹر کراچی سے ملاقات کے بعد مذکورہ صحافیوں کو رہا کردیا گیا۔ اب ایک بھرپور جدوجہد شروع ہوگئی، انتظامیہ شیڈول کے مطابق اخبار کی اشاعت جبکہ سندھ یونین آف جرنلسٹس اسے روکنے پر کمر کس چکی تھی۔ پیر علی محمد راشدی اس وقت مذکورہ اخبار کے ایڈیٹر اور ایم اے کھوڑو وزیر اعلیٰ سندھ تھے جنہوں نے معاملہ طے کروانے کی بھرپورکوشش کی لیکن صحافی ہڑتال ختم کرنے پر تیار نہیں تھے، پورے پاکستان کے صحافی کراچی کے صحافیوں کی ہڑتال کی حمایت کرنے لگے اور ملک میں پہلی باراکتوبر۱۹۴۹ میں تمام اخبارات کے صحافیوں نے ۲۴ گھنٹے مسلسل ہڑتال کی۔

لیاقت علی خان

وزیراعظم لیاقت علی خان نے کچھ عرصہ بعد معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے مفاہمتی بورڈ تشکیل دیا جس کی نمائندگی قاضی فضل اللہ کڑہے تھے اور اس میں ایم اے شکور بھی شامل تھے، ان کی کوششوں سے آخرکار سندھ آبزرور کا مسئلہ صحافیوں کے حق میں طے پایا۔ سال ۱۹۴۹ ایک اور حوالے سے بھی اہم ہے جیسا کہ اس سال سندھ یونین آف جرنلسٹس کی حیدرآباد برانچ قائم ہوئی۔

تیسرے سال ۱۹۵۰ میں میاں منظور الحق سندھ یونین آف جرنلسٹس کے قائم مقام صدر بنے اور ابرار صدیقی جنرل سیکریٹری۔ اس ہی سال سندھ یونین آف جرنلسٹس دو حصوں میں بٹ گئی اور ایگزیکٹو کونسل نے پارٹیشن کونسل تشکیل دے دی جو ابرار صدیقی اور اشتیاق اظہر پر مشتمل تھی تاکہ نو تشکیل کراچی یونین آف جرنلسٹس کی ترجمانی کرسکیں اور اختر علی شاہ سمیت ایک اور نمائندے پرمشتمل سندھ یونین آف جرنلسٹس کی حیدرآباد برانچ کو علیحدہ ذمے داریاں سونپ دی گئیں۔

میری کے یو جے

۱۹۵۱ باقاعدہ طور پر کراچی یونین آف جرنلسٹس کا پہلا سال تھا اور اس کے پہلے صدر کے ایم احسان اللہ، اشتیاق اظہر جنرل سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری جی ایچ منصوری تھے۔ جن کی قیادت میں پہلے ہی سال یہ اہم واقعات رونما ہوئے۔

۱۔ ایک اہم پیشرفت یہ تھی کہ پہلے ہی سال کراچی یونین آف جرنلسٹس کو حکومت کی جانب سے صحافیوں کے مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے سہ فریقی کانفرنس میں مدعو کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کو حکومت اور اخباری مالکان کی جانب سے عامل صحافیوں کی واحد نمائندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

۲۔ دوسری اہم بات کراچی یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے کراچی کے صحافیوں کے حالات پر مبنی رپورٹ کا اجرا تھا، یہ صحافیوں کے کام کی جگہ کے حالات اجاگر کرنے اور ان پر مشاورت کے ذریعے بہتری لانے کی پہلی کوشش تھی۔

۳۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے مستحق اور بے روزگار صحافیوں کی فلاح کے لئے بینیویلنٹ فنڈ قائم کیا گیا جیسا کہ تاج برطانیہ کے دور میں نیشنل یونین آف جرنلسٹس نے قائم کیا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں ایگزیکٹو کونسل نے ایک ذیلی کمیٹی بنائی اور بینیویلنٹ فنڈ کے حوالے سے قواعد و ضوابط کو حتمی شکل دے کر شائع بھی کیا۔

۴۔ عامل صحافیوں کو سفری رعایات دینے کا معاملہ بھی پاکستان ویسٹرن ریلوے کی جانب سے اصولی طور پر قبول کیا گیا۔

۵۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے ایک اسٹڈی سرکل بھی بنایا گیا جس میں سینئر صحافی اجلاس میں اپنی دستاویزات پیش کرتے جن پر بحث و مباحثہ کیا جاتا تھا۔ بہت سے غیر ملکی صحافی جو اُس سال پاکستان آئے انہوں نے اس سرکل سے خطاب کیا۔ اس وقت اس سرکل میں مہمان مقڑ کا درجہ پانا بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ ان مہمانوں میں ایک بڑا نام والٹر لپمین کا بھی تھا۔

۶۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس بین الاقوامی مزدور تنظیم آئی ایل او سے بھی مربوط ہوگئی اور اس نے اس فورم پر پاکستان میں صحافیوں کے کاموں کی صورتحال پر جامع رپورٹ بھی پیش کی۔

ایوننگ ٹائمز میں ہڑتال

۱۹۵۲ میں احسان اللہ صدر اور اے بی ایس جعفری جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہ سال بھی کے یو جے کے لئے اہم ثابت ہوا جیسا کہ اس یونین نے ایوننگ ٹائمز کا تنازع طے کروایا۔ یہ تنازع برطرفیوں سے شروع ہوا جس پر کراچی یونین آف جرنلسٹس نے ہڑتال کا اعلان کیا اور اس میں اخباری کارکنان نے بھی شرکت کی۔ انتظامیہ نے اخبار کی اشاعت کسی دوسری جگہ سے کرنا چاہی جس پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس واقعے میں دو صحافی اور ۱۳ پریس ورکرز گرفتار ہوئے۔ یہ تنازع جاری تھا کہ ایم بی خالد نے بھوک ہڑتال کردی جو تادیر جاری رہی تاہم بعد ازاں یہ مسئلہ حل ہوگیا۔ اس واقعے نے ملک گیر توجہ حاصل کی۔ ۲۴ گھنٹے کی ہڑتال کی گئی جو ایک کامیابی تھی۔

پی ایف یو جے کراچی میں قائم ہوئی

کراچی یونین آف جرنلسٹس، فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نظریات کے اعتبار سے ہراول دستہ تھی۔ پنجاب یونین آف جرنلسٹس اور اس کے بعد کراچی یونین آف جرنلسٹس کی پیشرو سندھ یونین آف جرنلسٹس کی مشاورت کے بعد فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی دستور نویسی کے لئے ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی جس کا کنوینر ایم اے شکور کو مقرر کیا گیا۔ اس کمیٹی نے دستور کا متن مرتب کیا جس کی منظوری بعد ازاں ایگزیکٹو کونسل نے دی۔ اس کے بعد سندھ یونین آف جرنلسٹس نے عامل صحافیوں کا ایک کنونشن کراچی میں بلایا جس کا انعقاد خالق ڈینا ہال میں ہوا اور اس کا افتتاح اس وقت کے وفاقی وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان نے کیا۔ جب آئین منظور ہوگیا تو پی ایف یو جے کی رکنیت سازی ہونے لگی اور عامل صحافیوں کی ملک گیر تنظیم قائم ہوگئی۔

کراچی پریس کلب بھی کے یو جے کا ہی خیال تھا

پریس کلب کے قیام کا خیال بھی کراچی یونین آف جرنلسٹس نے اجاگر کیا اور اس سلسلے میں آئین نویسی کے لیے ایک کمیٹی بنائی۔ اس بار بھی ایم اے شکور نے بھرپور دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ابتدائی مسودہ تیار کیا جسے بعد ازاں ایگزیکٹو کونسل کی جانب سے منظور کرلیا گیا۔