جانیے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کے قانون کے مسودے میں کیا ہے ؟؟؟

جانیے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کے قانون کے مسودے میں کیا ہے ؟؟؟

قانون بن جانے کی صورت میں کس میڈیا ورکر کو کیا تحفظ ملے گا ؟؟؟

پرتشدد واقعات، حملوں، دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے سے تحفظ کیسے ملے گا ؟؟؟

حکومت، صحافی تنظیموں، اور مالکان کا کیا کردار ہوگا ؟؟؟

تحریر فہیم صدیقی

جنرل سیکریٹری

کراچی یونین آف جرنلسٹس

پہلا حصہ

پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں صحافیوں کے قتل، اغوا، دھمکیوں اور دیگر طریقوں سے انہیں ہراساں کیے جانے کے واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں ان واقعات کے ہونے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے مخصوص قوانین کا نہ ہونا ہے کسی واقعے کے بعد دیگر فوجداری قوانین کے تحت مقدمات تو درج کرلیے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں آج تک کسی صحافی پر حملے کے ملزمان کو سنائی گئی سزا پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ امریکی صحافی ڈینیئل پرل اور ولی بابر قتل کیس اس کی واضح مثال ہیں جس میں ملزمان کو ماتحت عدالتوں سے سزائے موت سے قید و جرمانے تک کی سزائیں سنائی گئیں لیکن اعلی عدالتوں میں دائر اپیلوں پر انہیں باعزت بری کردیا گیا۔ گذشتہ چند سالوں سے پاکستان خاص طور پر صوبہ سندھ میں ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کے دوران کئی صحافی اپنی جان سے گئے اور کئی زخمی بھی ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے الگ سے قانون سازی کی جائے، ایک ایسی قانون سازی جس کے نتیجے میں صحافیوں کو تحفظ کا احساس ہوسکے، سابق دور حکومت میں پہلی بار صحافیوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود پر قانون سازی کا آغاز ہوا اور اس وقت کی وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے جرنلسٹس ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل 2016 کا مسودہ تیار کیا۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس نے 2016 میں اس کا جائزہ لیا اور اس میں مزید بہتری کے لیے حکومت کو اپنی سفارشات بھیجیں بدقسمتی سے نواز شریف کی حکومت اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچاسکی اور صحافیوں کے تحفظ کے بل کا یہ مسودہ قانون کی شکل اختیار نہ کرسکا۔ 2018 کے انتخابات کے بعد مرکز میں پی ایف یو جے پاکستان تحریک انصاف سے اور سندھ میں کراچی یونین آف جرنلسٹس پاکستان پیپلز پارٹی سے اپنے اس دیرینہ مطالبے کو دہراتی رہی صوبے اور مرکز دونوں جگہ دو الگ الگ سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ ملک بھر کی صحافی برادری کے اس مطالبے کو دونوں حکومتوں نے سنجیدگی سے لیا اور 21 مئی 2021 وہ تاریخی دن تھا جب قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی دونوں جگہ صحافیوں اور دیگر میڈیا ورکرز کے تحفظ کے حوالے سے تیار کردہ بل پیش کردیے گئے وفاقی حکومت کی جانب سے تیار کردہ بل کو “پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز بل 2020” جبکہ سندھ اسمبلی میں پیش کردہ بل کو “دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز بل 2021” کا نام دیا گیا دونوں بل قریب قریب ہیں اور اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دونوں میں 80 فیصد مماثلت ہے لیکن یہ دونوں بل 2016 میں تیار کیے گئے جرنلسٹس ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل کے مسودے سے کافی مختلف اور بہتر ہیں۔ صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کی تیاری پر پی ایف یو جے اور کراچی یونین آف جرنلسٹس نے وقتا فوقتا اپنے اجلاس، سیمینار اور ویبینار منعقد کیے اور حکومت کو اپنی سفارشات بھیجیں۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے ایک وفد نے 23 اپریل 2021 کو صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات ناصر حسین شاہ سے سندھ اسمبلی میں ایک ملاقات کی اور بل پر انہیں کے یو جے کی سفارشات پیش کیں۔ ان سفارشات کو بل کا حصہ بنایا گیا ہے جس پر کے یو جے سندھ حکومت کی مشکور بھی ہے آج قلم اٹھانے کا مقصد یہ تھا کہ جرنلسٹس پروٹیکشن بل کی جب بھی بات ہوئی صحافی برادری کی جانب سے یہ سوال کیا گیا کہ اس بل کے مندرجات کیا ہیں اور اس کے قانون بن جانے کی صورت میں صحافی برادری کو کیا فائدہ ہوگا؟ کے یو جے کی جانب سے ماضی میں بھی اس بل کا مسودہ سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا تھا اور اب جبکہ سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انصاف و پارلیمانی امور نے بھی اس بل کی منظوری دیدی ہے تو راقم الحروف نے یہ مناسب سمجھا کہ اس کی چیدہ چیدہ باتیں سامنے لائی جائیں تاکہ صحافی برادری کو یہ اطمینان حاصل ہوسکے کہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے ان کے حقوق کا تحفظ جاری ہے۔

سندھ اسمبلی میں پیش کردہ اور قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے والے “دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹشنرز بل 2021” کے مسودے کے مطابق اس بل کا مقصد ملک میں صحافیوں اور دیگر میڈیا پریکٹشنرز کے آزادی اظہار رائے کے حق، ان کے تحفظ، غیرجانبداری اور خودمختاری کو فروغ دینا ہے۔ جبکہ 1973 کے آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کے تحت یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کے حق کا تحفظ کرے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ یہ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور ان کی خودمختاری کے مضبوط کلچر کو پروان چڑھائے اور ان پر ہونے والے خاص حملوں پر غور و فکر کرے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں اور دیگر میڈیا پریکٹشنرز کے حقوق کے تحفظ اور اسے پروان چڑھانے کے لیے قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک قائم کرنا فائدہ مند ہوگا۔

بل میں صحافیوں کو مکمل کور کیا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے صحافی کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی بھی اخبار، میگزین، نیوز ویب سائٹ یا کسی نیوز براڈکاسٹ سے وابستہ ہو جو ریڈیو اور ٹی وی دونوں ہوسکتے ہیں اور وہ سیٹلائٹ یا کیبل پر چلنے والا چینل یا آن لائن یا آف لائن چینل بھی ہوسکتا ہے جبکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی اخبار، میگزین، نیوز ویب سائٹ یا دیگر براڈکاسٹ نیوز کے لیے فری لانس کام کررہا ہو صحافی کہلائے گا۔

بل میں تمام میڈیا ورکرز کو بھی مکمل کور کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ میڈیا پریکٹیشنرز کا مطلب ہر وہ شخص جو ابلاغ عامہ کے کسی بھی ذریعے سے عام افراد تک معلومات پہنچانے میں کسی طرح بھی شامل ہو جس میں کیمرہ مین، فوٹوگرافر، ٹیکینکل سپورٹ اسٹاف، ڈرائیورز، ترجمان، مترجم، ایڈیٹرز، پبلشرز، براڈکاسٹرز، پرنٹرز اور ڈسٹری بیوٹر شامل ہیں۔

بل میں صحافیوں کو کسی بھی ذریعے سے ہراساں کیے جانے کو جرم قرار دیا گیا ہے جس کی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کسی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنرز کو ہراساں کرنے کا مطلب اسے دھمکی دینا، نقصان پہنچانا، زبانی یا تحریری یا کسی بھی اور ذریعے سے چاہے وہ واضح ہو یا اس کا مفہوم یہی بنتا ہو اور اس کا مقصد سنسر کرنا، دھکمی دینا یا زبردستی کرنا ہو جرم تصور ہوگا۔

بل میں حکومت، میڈیا مالکان، جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور سورسز یعنی ذرائع کی بھی تشریح کی گئی ہے۔

بل کا دوسرا حصہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی زندگی کے تحفظ اور ان کی حفاظت سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت آئین کے آرٹیکل 9 کے مطابق صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کی زندگی کے تحفظ اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے اور انہیں ہر قسم کے تشدد پر مبنی واقعات سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین سمیت دیگر سیکیورٹی قوانین، من مانی کرتے ہوئے صحافیوں کے کام میں مداخلت کیلئے استعمال نہ کیے جائیں۔ حکومت اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ تنازعہ والے اور متاثرہ علاقوں میں کام کے دوران صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کو کسی قسم کی دھکمی، خوف اور مقدمات درج کیے جانے کا ڈر نہ ہو۔

بل کے مطابق کوئی بھی شخص یا ادارہ خواہ وہ نجی ہو یا سرکاری کسی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر کے خلاف کسی قسم کے پرتشدد واقعے یا اسے دھمکی میں ملوث نہیں ہوگا ہر صحافی اور میڈیا پریکٹشنر کو اپنی خبر کے ذریعے کو سامنے نہ لانے کا مکمل تحفظ ہوگا اور کوئی بھی حکومتی افسر، ایجنسی یا ادارہ کسی صحافی یا میڈیا پریکٹشنرز پر خبر کے “ذریعے” کو سامنے کے لیے دباو نہیں ڈال سکے گا، نہ اسے دھمکی دے گا، نا کسی طریقے سے مجبور کرے گا اور نا ہی کوئی ترغیب دے گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ حکومت صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کو کسی بھی شخص یا گروہ یا کسی سرکاری یا نجی ادارے کی جانب سے جسمانی طور پر، آن لائن یا ڈیجیٹل طریقے سے ہراساں کرنے، دھمکانے اور انہیں پرتشدد واقعات سے بچانے کے لیے ہر ممکن ضروری اقدامات کرے گی۔ کسی صحافی یا میڈیا پریکٹشنرز کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی پرتشدد واقعے پر کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی اور فوری طور پر موثر تفتیشی اور استغاثے کی کارروائی کی جائے گی۔ کسی صحافی یا میڈیا پریکٹشنر کو حملہ کرنے یا ہراساں کرنے کی دھمکی کو بھی عملی طور پر ہراساں کرنے اور ان پر حملے کے طور پر لیا جائے گا۔

بل کے مطابق حکومت میڈیا کے خلاف جرائم سے لڑنے کے لیے موثر حکمت عملی تیار کرے گی اور کسی بھی صحافی یا میڈیا پریکٹشنرز کی جانب سے ازخود یا ان کے اہلخانہ، یونینز، میڈیا ایسوسی ایشنز یا ان کی زندگی کے تحفظ اور حفاظت پر کام کرنے والی سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے رپورٹ کیے جانے والے کیسز کی تفتیش اور ان کی مانیٹرنگ کرے گی۔

وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر حکومتی اداروں کے مابین ہم آہنگی کی حکمت عملی اختیار کرے گی۔ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز جس میں سول سوسائٹی، یونینز، مالکان، اور میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والی ایسوسی ایشنز اور حکومتی اداروں کے مابین ہم آہنگی لانے کے لیے کام کرے گی تاکہ صحافیوں اور میڈیا پریکٹشنرز کو اقوام متحدہ کے جرنلسٹس سیفٹی پلان کے تحت حاصل کام کرنے کے بہترین مواقع مل سکیں۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Share the post

Leave a Reply

Your email address will not be published.